حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ناموں میں سے اللہ جل شانہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔
مسلمان بچوں کے نام رکھنے کا صحیح طریقہ
والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچے کا نام اچھا رکھیں ۔ اس لیے ان کی رہنمائی کیلئے آج کل ناموں کے سلسلہ میں کچھ غلط رواج نکل پڑے ہیں یہاں نام رکھنے سے متعلق ہدایات و سنتیں اور کچھ نام بھی نقل کیے جائیں گے۔
جیسے اللہ تعالیٰ شانہ کے اسماء حسنیٰ اور حضرات انبیاء علیہم السلام اور خاتم الانبیاء والمعصومین حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند مبارک نام آپ کے اہل بیت کے نام، اصحاب بدرین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کرام نیز صحابیہ عورتوں اور تابعین عورتوں بزرگان دین یا معنوی اعتبار سے اچھے ہیں۔
حدیث بالا میں جو عبداللہ اور عبد الرحمن کے پسندیدہ ہونے کا ذکر ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور یہ چیز جس میں عبدیت کا اظہار ہو اللہ جل شانہ کو بہت پسند ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں نام انبیاء کے ناموں کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام اس سے مستثنیٰ ہیں۔
ایک حدیث میں فرمایا سموا باسماء الانبياء (ابوداؤد) یعنی پیغمبروں کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھو۔ چنانچہ خود آپ ﷺ نے اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے بچوں کے ایسے نام بھی رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہوں اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں۔ مثلاً آپ نے اپنے صاحبزادوں کا نام عبد اللہ اور قاسم بھی رکھا۔ چنانچہ ابوالقاسم آپ کی کنیت انہی کے انتساب سے تھی۔
مسلمان بچوں کے نام رکھنے سے متعلق اہم ہدایات
اب نام رکھنے سے متعلق چند ایک ہدایات و سنتیں نقل کی جاتی ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو بدل کر ان کے عوض اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے۔ (ترمذی) ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص تھا۔ جس کو "اصرام” کہتے تھے ۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے کہا مجھ کو اصرام کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ آج سے تمہارا نام زرعہ ہے۔ اس روایت کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔ نیز انہوں نے (بطریق و تخلیق ) یہ بھی نقل کیا ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاص، عزیز عتله ، شیطان حکم غراب ، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔
بچوں کے غلط ناموں کی مثالیں
- اصرام کے معنی کاٹنے والا کترانے والا کے ہیں ۔ یہ نام نامناسب تھا۔
- عاص عاصی کا مخفف ہے۔ اور نافرمانی پر دلالت کرتا ہے۔ جب کہ مومن مسلمان کی یہ صفت نہیں لہذا عاص یا عاصیہ نام نہ رکھیں۔
- عزیز چونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم پاک ہے۔ لہذا عبدالعزیز نام رکھنا تو مناسب ہے لیکن صرف عزیز نام غیر موزوں ہے۔
- عتلہ کے معنی ہیں غلظت و شدت۔
- شیطان شطن سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں۔ اللہ کی رحمت سے دور ہونا۔
- حکم حاکم کا مبالغہ ہے۔ اور حقیقی حاکم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لہذا عبد الحکم نام تو صحیح ہے۔ لیکن صرف حکم کہنا غیر موزوں ہے۔
- غراب کوے کو کہتے ہیں اس کے معنی دوری کے ہیں۔
- حباب حباب شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی حباب کہتے ہیں۔
- شہاب شہاب آگ کے اس شعلہ کو کہتے ہیں۔ جو فرشتے شیطانوں پر مارتے ہیں۔ البتہ شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے تو صحیح ہے، جیسے شہاب الدین۔
قرآنی الفاظ پر بچوں کے نام رکھنا
بعض لوگ بچے کا نام تجویز کرتے وقت قرآن مجید سے نام کے حروف نکال کر اور بچے کے نام کے حروف کے اعداد اور تاریخ پیدائش کے اعداد کو آپس میں ملا کر نام رکھتے ہیں۔ یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں علم الاعداد پر اعتماد کی اجازت نہیں ہے۔
البتہ تاریخی نام رکھنا جس کے ذریعہ سن پیدائش محفوظ ہو جائے تو یہ صحیح ہے۔ بعض لوگ پیار و اظہار محبت کی غرض سے اپنے بچوں کے اصلی ناموں کے علاوہ ایک اور عرفی نام رکھتے ہیں۔ مثلا محمد اسماعیل عرف پیارو عبدالرحمن عرف مانی، عبدالقادر عرف صابو عبدالباسط عرف پپی وغیرہ۔ یہ نا مناسب بات ہے۔
بعض لوگ قرآن مجید کھول کر ساتویں سطر کی ابتدا میں جو حرف ہوگا اسی حرف سے نام رکھتے ہیں۔ مثلاً حرف ” ش“ نکلا تو نام ش“ سے شکیل یا شکیلہ، شمیم الدین یا شیماں رکھتے ہیں۔ یہ غلط ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بعض لوگ خوب صورت اشیاء کے نام بھی بچوں کے لیے رکھتے ہیں۔ جیسے بدر، ثریا، قمر، مہر گلناز ، گلاب، شمیم نسیم ، کوثر تسنیم وغیرہ۔ اگرچہ یہ نام برے نہیں مگر ان سے مذہبی تہذیب و اخلاق کی جھلک نظر نہیں آتی۔ البتہ ان مفرد ناموں کو مرکب کر دیا جائے تو حرج نہیں جیسے نسیم احمد کوثر احمد شمیم الدین ، گلاب محمد تسنیم الدین وغیرہ۔
مسلمان بچیوں/لڑکیوں کے نام رکھتے وقت خصوصی ہدایات
بچیوں کے نام رکھتے ہوئے کسی نام کے آخر میں خاتون، آرا، بیگم، سلطانہ، بانو ، بی بی، خانم، وغیرہ لگا سکتے ہیں۔ مثلاً امیر خاتون، عائشہ بانو ، سائرہ خانم ، نورین آراء وغیرہ۔ دو مفرد ناموں کو ملا کر ایک نام رکھنا بھی صحیح ہے۔ مثلاً رابعہ زینت، زرینہ احسان شمرین نشاط، مدیحہ اقبال، نزہت جمال جمیر اتسکین وغیرہ۔ بعض لوگ بچیوں کے اچھے ناموں کو بگاڑ کر بولتے ہیں۔ مثلاً میمونہ کو ممو، مجیداں کو مجو، ناجیہ کو جو تسنیم کو تسی ، خورشیدہ کوشیدہ وغیرہ۔ اس طرح سے کہہ کر پکارنا غلط ہے۔
بعض بچے اپنی ماں کو بھا بھی ، باجی یا آپا اور باپ کو بھائی مثلاً کسی کے باپ کا نام معاویہ یا عبداللہ ہے، اسے معاویہ بھائی ، عبداللہ بھائی وغیرہ کہ کر پکارنا یا وڈیرہ یا وڈیری کہہ کر پکارنا یہ غلط اور والدین کی توہین بھی ہے۔ لہذا اس سے احتراز ضروری ہے۔
بعض لوگ عبدالرحمن عبد الخالق عبد القدوس، ناموں سے لفظ ”عبد“ کو چھوڑ کر صرف قدوس ۔ رحمن، خالق، رزاق ، غفار، قادر وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس طرح "عبد” کا لفظ ہٹا کر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ دوسروں کو پکارنا حرام اور ناجائز ہے۔
ناموں کا ترجمہ کرنا
بعض لوگ اپنی اولاد کے لیے اچھے نام تو رکھتے ہیں۔ مگر مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کر کے پکارتے یا لکھتے ہیں۔ جو بالکل مہمل اور غیر ضروری حرکت ہے۔ جیسے تامل ناط میں شمس الدین کو کدورن کہہ کر پکارتے ہیں یا عبدالرحمن کو عبدل رمال تامل میں لکھتے ہیں۔ یہ غلط اور نا جائز ہے اور مذہب کی خصوصیات سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
اگر کسی کا نام محمد عمر محمد معاویہ یا محمد حسین ہے تو لفظ محمد پر "ص” کا نشان نہیں لگانا چاہئے کیونکہ یہ اس شخص کے نام کا تبرک کے طور پر جز ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا نام نہیں ہوتا۔ بعض لوگ اپنے بچوں کے وہی نام رکھ دیتے ہیں جن مہینوں میں وہ بچے پیدا ہوتے ہیں جیسے رمضانی ، شعبانی وغیرہ یہ طریقہ بھی صحیح نہیں ہے۔
بعض لوگ ستاروں کو دیکھ کر مثلاً ستاره عطارد، برج سنبلہ پر نام رکھا جاتا ہے اور پھر پتھر لاجوردی، نیلم، زرقون وغیرہ پہنانے کے لئے جاتا ہے۔ یہ شرک اور عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔ ایک مسلمان کو ان چیزوں پر اعتماد کرنا حرام ہے۔
بعض پڑھے لکھے سنجیدہ لوگ بھی غلط ناموں کے عادی ہو گئے ہیں۔ جیسے عبدالمصطفیٰ عبدالحسن، عبدالحسین، عبدالکعبہ، عبدالعثمان جیسے نام عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ کیا اس طرح ہم لوگ (جن کا یہ ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں) شرک کے مرتکب نہیں ہو رہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی کے ناموں پر اپنے بچے کا نام رکھنا
لہذا عبد کا لفظ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہی کسی نام کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ جیسے عبداللہ، عبد الرحمن، عبدالغفور، عبدالصبور وغیرہ۔ کیونکہ مذہب اسلام میں اس قسم کے ناموں کو مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انبیاءعلیہم السلام ، صحابہ کرام ، اور سلف صالحین کے ناموں کا رکھنا بھی باعث خیر و برکت اور شعار ملت ہے۔
پرویز نام رکھنا حج نہیں ہے کیونکہ پرویز شاہ ایران کا نام تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر دیا تھا اور ہمارے زمانہ میں مشہور منکر حدیث کا نام بھی پرویز ہی تھا۔ لہذا ایسا نام نہیں رکھنا چاہئے۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے نام اچھے رکھے جائیں۔ لہذا اپنی
اولاد کا نام غیر اسلامی ہندوؤں، کافروں جیسا نام رکھنا جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ کسی لقب یا تخلص کو اختیار کرتا ہے (بشرطیکہ وہ بذات خود غلط نہ ہو) تو یہ جائز ہے۔ کنیت کو بطور نام استعمال کرنا صیح بلکہ بہتر ہے۔ مثلاً ابوبکر، ابوعمر، ابوعبیدہ وغیرہ نام رکھنا صحیح بلکہ بہتر ہے۔ واضح رہے کہ جو بچہ زندہ پیدا ہوا ہو اور چند لمحوں کے بعد مر جائے تو نام اس کا بھی رکھنا چاہئے۔