جنات کی حقیقت اور ان کے شر سے بچنے کا طریقہ

جن انسان کے برخلاف ایک مخلوق ہے۔ الجان اس کی واحد ہے۔ اس کا لغوی معنی پوشیدہ ہونا ہے جیسے کہا جاتا ہے: جنه الليل اور ”جن علیہ“ وغیرہ۔ ابن منظور کا کہنا ہے کہ اسے جن کا نام اسی وجہ سے دیا جاتا ہے کہ یہ آنکھوں سے اوجھل اور پوشیدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں کے بدن میں موجود بچے کو خفی ہونے کی بنا پر ہی جنین‘ کہتے ہیں۔ اہل جاہلیت فرشتوں کو بھی آنکھوں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے جن کہتے تھے۔ جنات آگ سے بنے ہوۓ اجسام ہیں۔ جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے سخت حرارت والی آگ سےتخلیق کیا۔” (الحجر: 27)

بیضاوی رحمہ اللہ نے کہا: جن نظروں سے مخفی عقل رکھنے والی مخلوق ہے۔ اور ان پر ناری یا ہوائی ہونا غالب ہے۔” ابوعلی بن سینا کا فرمانا ہے کہ جن ایک ہوائی مخلوق ہے جو مختلف اشکال میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔”

جنات کا وجود

جن کا وجود قرآن اور سنت سے ثابت ہے اور اس کے وجود پر اجماع بھی ہے۔ ان کے وجود کا منکر کافر ہے۔ کیوں کہ اس سے دین کے بعض علم اور نصوص کا انکار لازم آ تا ہے۔

جنات کا مختلف اشکال میں ڈھلنے کی قدرت پانا۔ بدرالد ین شبلی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جنات میں انسانوں اور جانوروں کی مثل شکل اختیار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کبھی تو وہ سانپوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور کبھی بچھوؤں کی۔ کبھی وہ متعدد جانور جیسے اونٹ، گاۓ ، بکری، مچھر، گھوڑے اور گدھے وغیرہ کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ کبھی پرندوں کی شکل اپناتے اور بسا اوقات انسانوں کی صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔

جیسے: شیطان قریش والوں کے پاس سراقہ بن مالک بن جعشم کی شکل میں آیا تھا، جب انھوں نے بدر کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

"اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے سجا کر پیش کیے اور وہ کہنے لگا آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور بے شک میں تمھارا ساتھی ہوں۔ پھر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا بے شک میں تم سے بری ہوں۔ بے شک میں وہ (فرشتے) دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے۔ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔”
اور ایسے ہی قریش نے دار الندوہ میں رسول اللہ ﷺ کوقتل یا قید یا جلا وطن کرنے کے لیے اکٹھ کیا تھا تو شیطان ان کے پاس ایک نجدی بوڑھے کی شکل میں آیا تھا۔

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مدینے میں جنوں کی ایک جماعت نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس لیے جب تمھیں کوئی گھریلو سانپ نظر آۓ تو اسے تین دن چلے جانے کا کہو۔ اگر وہ اس کے بعد نظر آۓ تو اسے قتل کر دو۔ کیوں کہ وہ شیطان ہے۔” ابن عابدین نے کہا: "جنات کا مختلف شکلیں اختیار کرنا احادیث، آثاراور متعدد حکایات سے ثابت ہے۔”

جب کہ کچھ لوگ جنوں کی اس امر پر قدرت کے انکاری ہیں۔ قاضی ابو یعلی فرماتے ہیں کہ شیاطین اس امر کی قدرت نہیں رکھتے کہ اپنی تخلیق تبدیل کریں یا متعدد صورتوں میں انتقال کرسکیں۔ صرف اس چیز کا جواز ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے انھیں کچھ کلمات یا اعمال سکھا دیے جنھیں اپنانے پر اللہ تعالی (خود) انھیں ایک صورت سے دوسری کی طرف منتقل کر دیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انھوں نے کہا: بلاشبہہ کوئی اس چیز کی طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی اس صورت کو تبدیل کر دے۔ جس پر اللہ تعالی نے اسے تخلیق فرمایا۔ لیکن ان کے پاس جادو گری ہے۔ تمھاری جادوگری کی طرح جب تم یہ چیز دیکھو تو اذان کہو۔ جنوں کے خصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کو تو دیکھ پاتے ہیں لیکن انسان انہیں کسی نادر موقعے کے علاوہ دیکھ نہیں سکتے۔

ارشاد باری تعالی ہے: "بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمھیں دیکھتا ہے جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔” الأعراف: 27

جنوں کی رہائش گاہیں اور ان کے کھانے پینے کے مقامات

جنات کا مسکن عموما معاصی اور نجاست والی جگہیں ہوتی ہیں۔ مثلاً: حمام، گندگی کے ڈھیر اور بیت الخلاء وغیرہ۔۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یقینا یہ بیت الخلاء جنات کا محل ہیں (اس لیے) جب تم میں سے کوئی قضاے حاجت کے لیے آۓ تو کہے:
اللهم إني أعوذبك من الخبث والخبائث "اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں ناپاک جنوں اور جنیوں (کےشر) ہے۔”

علاوہ ازیں ایسی جگہوں میں نماز پڑھنے کی ممانعت بھی متعدد آثار میں وارد ہوئی ہے۔ جنات کی غذا کا ایک بڑا حصہ ہڈیاں ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کچھ جنوں نے نبی ﷺ سے زاد راہ مانگا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا جاۓ ، تمھارے ہاتھ لگے تو وہ تمھاری غذا ہے۔ اور مینگنی اور لید تمھارے جانوروں کا چارہ ہے۔” نبی کریم ﷺ نے ہڈی اور لید سے استنجا کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: ” تمھارے جن بھائیوں کا توشہ ہے۔”

محمد ﷺ کی بعثت پر ایمان لانے میں جنوں کا مکلف ہونا

علما اس بات پر متفق ہیں کہ جنات درج ذیل آیات میں مخاطب اور مکلف ہیں:
وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون (الذاريات: 56) "اور میں نے جن اور انسان اس لیے تو پیدا کیے ہیں کہ وہ میری ہی عبادت کریں۔”
سورت الجن میں اللہ سبحانہ تعالی کا ارشا د ہے۔
(اے نبی) کہہ دیجیے: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) غور سے سنا تو انھوں نے کہا بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ وہ رشد وہدایت کی راہ دکھاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم کسی کو بھی اپنے رب کا ہرگز شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

سورت الرحمٰن میں اللہ سبحانہ تعالی کا ارشا د ہے۔

”اے گروہ جن و انس! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جانے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل جاؤ، قوت اور غلبے کے بغیر تو تم نکل ہی نہیں سکتے، تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

اور دیگر متعدد آیات اس امر کی دلیل ہیں کہ جن بھی انسانوں کی طرح مکلف اور مامور ہیں۔ رہی بات قرآن میں مذکور جنوں پر لعنت، ان کی مذمت، ان کے شر سے بچنے کی سعی اور اللہ تعالی کا ان کے لیے عذاب تیار کرنا، یہ امور تمام جنات کے لیے نہیں، بلکہ امر و نہی کے مخالف جنات کے لیے ہے۔ جو کبائر کے مرتکب اور محارم میں مبتلا رہتے ہیں۔

قاضی عبدالجبار کہتے ہیں: ”جنوں کے مکلف ہونے کے مسئلے میں اہل نظر کے درمیان کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں آیا۔

علماے امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ جن بعثت نبوی کے عموم میں داخل ہیں اور اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو جن اور انس کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ صحیح بخاری اور مسلم

اور حدیث جس میں ہے: ہر نبی کو اس کی مخصوص امت کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔
یہ ذکر کردہ دعوی کی دلیل ہے۔ ابن عقیل اللہ کا کہنا ہے کہ الناس لغوی اعتبار سے اس میں جنات بھی شامل ہیں۔
فیومی سے بھی اس کی مثل منقول ہے۔ جب کہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا: "جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہےخواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

جنات کو ان کے اعمال پر بدلہ ملے گا: جمہور علما کا یہ موقف ہے کہ جنات کو فرماں برداری پر ثواب اور نافرمانی پر عذاب ہو گا۔
"اور یہ کہ ہم میں مسلمان بھی ہیں اور ظالم بھی ، پھر جو کوئی اسلام لاۓ تو انھوں نے ہدایت کی راہ ڈھونڈ لی اور لیکن جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔” (سورت الجن)

"اور ہر ایک کے لیے ان اعمال کی وجہ سے درجے ہیں جو انھوں نے کیے۔” (سورت الانعام)

"ان سے پہلے انھیں کسی انسان اور کسی جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہو گا۔” (الرحمن: 56)

ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے حکایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:
” جنات کو آگ سے بچانے کے سوا کوئی اجر نہیں ملے گا اس لیے کہ قرآن میں ان کے لیے ویغفرلكم ذنوبكم ؟ آیا ہے اور
مغفرت اجر اور ثواب کو مستلزم نہیں، بلکہ وہ محض پردہ پوشی ہے۔” لیث بن ابوسلیم سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: ” جنوں کا ثواب یہ ہے کہ انھیں آگ سے بچایا جاۓ گا، پھر کہا جاۓ گا :مٹی ہو جاؤ۔”

ابو الزناد سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: ” جب اہل جنت، جنت میں اور اہل نار آگ میں داخل ہو جائیں گے تو ایمان وار جنوں اور بقیہ چیزوں کو کہا جاۓ گا : ”تم سب مٹی ہو جاؤ۔ اس وقت کافر کہے گا: ”کاش میں مٹی ہو جاتا۔‘ پھر علما اس امر پر بھی متفق ہیں کہ جنات کو آخرت میں عذاب بھی ہو گا۔ جیسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا : ” اور لیکن جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔”
سورت محمد میں "اور آگ ہی ان کا ٹھکانا ہے۔” کہہ کر اس کا ذکر کیا۔

انسانی جسم میں جن کا داخل ہونا

ابوالحسن اشعری کا کہنا ہے کہ بدن انسان میں جن کے داخل ہونے کے بارے میں لوگ دو مختلف آراء رکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جن کا بدن انسان میں دخول محال ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جن کا انسان کے جسم میں داخل ہونا ممکن ہے۔ آخر الذکر لوگوں کی دلیل رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے: "نکل اے اللہ کے دشمن! پس یقینا میں اللہ کا رسول ہوں۔”

علاوہ ازیں جنات کے اجسام اس قدر باریک ہیں کہ ان کے بدن انسان میں داخل ہونے کا انکارنہیں کیا جا سکتا۔ جیسے: کھانا اور پانی جنات کے مقابلے میں کثیف ہونے کے باوجود بطن انسان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور اس سے متعدد جواہر کا ایک ہی چیز میں مجتمع ہونا لازم نہیں آ تا۔ اس لیے کہ ان کا اجتماع بر سبیل مجاورت ہوتا ہے نہ کہ حلول کے طریقے پر۔ پس جنات کا دخول انسانی بدن میں ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی برتن میں بار یک جسم کا۔

جنات کا حدیث روایت کرنا کیسا ہے؟

جن کا انسان سے سنی ہوئی بات کو روایت کرنا جائز ہے، انھیں جنات کی موجودگی کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس کی دلیل سورۃ الجن کی ابتدائی متعدد آیات اور اللہ تعالی کا درج ذیل فرمان ہے: "کہہ دیجیے: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) غور سے سنا۔”

"اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا۔ جبکہ وہ قرآن سنتے تھے، پھر جب وہ اس ( کی تلاوت سننے ) کو حاضر ہوۓ تو (ایک دوسرے سے) کہا: خاموش رہو، چنانچہ جب ( تلاوت ختم ہوگئی تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر پھرے۔”

اس طرح جب کوئی شیخ اپنے پاس موجود لوگوں کو اجازت دے تو وہاں موجود جن بھی اس میں شامل ہوں گے۔ اگرچہ شیخ کو ان کا علم نہ ہو۔ رہی بات انسان کے کسی جن سے روایت کرنے کی تو اس بارے میں امام سیوطی کا قول ہے کہ "جنات کے عادل اور ثقہ ہونے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ان سے روایت کرنا ممنوع ہے۔”
معلوم ہوا کہ جب ان کا قرآن مجید روایت کرنا جائز ہے۔ تو حدیث کو روایت کرنا بالاولی جائز ہے۔

جنات کے لیے ذبح کرنا

جنات کے لیے اور ان کے نام پر ذبح کرنا حرام ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے "تمھارے لیے حرام کیے گئے ہیں مردہ جانور، خون، سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔” (المائدة: 3)

یحیی بن یحیی کہتے ہیں کہ مجھے وہب نے بتایا: ” کسی خلیفہ نے ایک چشمہ کھدوایا اور اس کے افتتاح کے موقعے پر جنات کے نام پر ایک جانور ذبح کیا۔ تا کہ وہ اس کا پانی گہرائی میں نہ لے جائیں۔ پھر اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا۔” ابن شہاب کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے کہا: "یقینا اس نے اپنا ذبیحہ حرام کیا اور لوگوں کو حرام کھلایا۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنات کے نام پر ذبح کرنے سے منع کیا ہے۔”

اذکار جن کے ذریعے شیاطین اور سرکش جنات کے شر سےبچا جا سکتا ہے


صاحب الاحکام کے مطابق اس کے دس طریقے ہیں۔

1- جنات کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنا

اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور اگر آپ کو شیطان کا کوئی وسوسہ ابھارے تو اللہ کی پناہ مانگیے ، بے شک وہ خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے۔”

اور صحیح حدیث میں مروی ہے کہ دو آدمی نبی اکرم ﷺ کے سامنے باہم لڑ پڑے یہاں تک کہ ایک کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
اس موقعے پر نبی ﷺ نے فرمایا: ” مجھے ایک کلے کا علم ہے جسے کہنے سے اس کا غصہ دور ہو جاۓ گا۔ وہ کلمہ ہے ” "اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ” "میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، شیطان مردود سے”

2- معوذتین کی تلاوت کرنا

جامع ترمذی میں روایت ہے کہ ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ معوذتین کے نزول سے قبل جنات اور نظر بد سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے۔ جب معوذتین کا نزول ہوا تو آپ ﷺ نے انھیں اپنا معمول بنا لیا اور دیگر معوذات کو ترک کر دیا۔”

3- آیت الکرسی کی تلاوت

ابو ہریرہ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فطرانے کے مال کی حفاظت کی ذمے داری مجھ پر عائد کی۔ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور غلے سے لپ بھرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑا اور کہا: میں ضرور تجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا…… پھر اس نے کہا: ”میں تجھے کچھ کلمات سکھاتا ہوں، اللہ تعالی تجھے ان کے ساتھ نفع دے گا۔ میں نے پوچھا: "وہ کیا ہیں؟” اس نے کہا: ” جب تو اپنے بستر پر جاۓ تو آیت الکرسی پڑھ۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالی کی طرف سے تجھ پر ایک محافظ مقرر ہوگا اور صبح ہونے تک شیطان تیرے قریب نہیں آۓ گا۔ نبی ﷺ نے مجھے پوچھا: ”آج کی رات تیرے قیدی نے کیا کیا؟“ میں نے عرض کی: ”اللہ کے رسول ﷺ! وہ مجھے ایک چیز سکھا گیا ہے اور میں نے گمان کیا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ مجھے نفع دے گا۔ نبی ﷺ کے پوچھنے پر میں نے اس کی تمام گفتگو آپ ﷺ کو سنا دی۔ آپ ﷺ نے میری بات سن کر فرمایا: "یقینا اس نے سچ کہا ہے، حالاں کہ وہ خود جھوٹا ہے، اے ابو ہریرہ! وہ شیطان تھا۔”

4- سورۃ البقرہ کی تلاوت کرنا

ابو ہریرہ ﷺ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ بلاشبہ شیطان اس گھر سے بھاگ جا تا ہے جس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جاۓ۔”

5- سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جس نے رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اسے کفایت کریں گی۔”

نیز نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالی نے زمین اور آسمان کی تخلیق کے دو ہزار سال قبل ایک کتاب لکھی ، اس کتاب سے دو آیتوں کا نزول کیا جن سے سورۃ البقرہ کا اختتام ہوتا ہے اور یہ دو آیات کسی گھر میں تین راتیں پڑھی جائیں تو شیطان اس سے بھاگ جا تا ہے۔”

6- سورۃ المومن کے آغاز سے اليه المصير تک اور آیتہ الکرسی کی تلاوت کرنا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے سورۃ المومن کی ابتدائی تین آیات اور آیت الکرسی صبح کے وقت پڑھیں وہ شام تک محفوظ ہو گیا اور جس نے شام کے وقت پڑھیں وہ صبح تک محفوظ ہو گیا۔”

7- "لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهوعلى كل شيء قدير” سو بار پڑھنا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے ” لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهوعلى كل شيء قدير” ایک دن میں سو بار پڑھا اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ملے گا۔ اس کی سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے سو گناہ مٹاۓ جائیں گے۔ اور وہ پورا دن یعنی شام تک شیطان کے شر سے محفوظ ہو جاۓ گا اور کسی کا عمل اس سے فضیلت والا نہ ہو گا مگر جس نے اس سے بڑھ کر عمل کیا۔”

8- کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا

حارث اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالی نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ کلمات کا حکم دیا کہ وہ خود ان پر مل کریں اور بنی اسرائیل کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیں۔ قریب تھا کہ وہ اس معاملے میں تاخیر کرتے۔ عیسی علیہ السلام نے انھیں کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کو پانچ باتوں پر عمل کرنے اور بنی اسرائیل کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر آپ انھیں حکم دیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میں خود انھیں حکم دے دیتا ہوں۔ یحییٰ بن زکریا علیہ السلام نے جواب دیا کہ تم اس معاملے میں مجھ پر سبقت لے گئے تو مجھے زمین میں دھنس جانے اور اللہ کی پکڑ کا اندیشہ ہے۔”

پھر انھوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ جب سب لوگ مسجد میں جمع ہوئے تو یحییٰ بن زکریا علیہ السلام گویا ہوئے:
"مجھے اللہ نے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود ان پر عمل کروں اور تمھیں بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں:
پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ مشرک کی مثال اس آدمی کی طرح ہے۔ جس نے اپنے پاکیزہ مال یعنی سونے اور چاندی کے عوض ایک غلام خریدا اور اسے کہا: یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے پس تم کام کرو اور معاوضہ مجھے ادا کرتے رہو، پھر وہ زرخرید غلام کمائی کرے اور معاوضہ کسی اور کو دے۔ کیا تم میں سے کوئی اپنے غلام کے اس طرزعمل کو پسند کرے گا؟

دوسری بات یہ کہ اللہ تعالی نے تمھیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر نہ جھانکو۔ اس لیے کہ اللہ تعالی اپنا چہرہ بندے کے چہرے کے سامنے کرتا ہے جب تک وہ اپنی نماز میں التفات نہیں کرتا اور مزید برآں اس نے تمھیں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جولوگوں کی ایک جماعت میں ہو اور اس کے پاس کستوری کی تھیلی ہو جس سے وہ مجمع معطر ہو جاۓ ، روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک کستوری سے بڑھ کر ہے۔ اس نے تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے اور صدقہ کرنے والے کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جسے دشمنوں نے قید کرلیا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے، پھر اسے قتل کے لیے قتل گاہ لے گئے۔ اس نے کہا تم مجھ سے تمام مال لے لو اور میری جان بخش دو۔ انھوں نے یہ پیش کش قبول کی اور اسے آزاد کر دیا۔

پانچویں چیز جس کا اللہ تعالی نے تمھیں حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر کرو اور ذکر کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے تعاقب میں دشمن بڑی تیزی سے نکلا اور اس نے اپنے آپ کو ایک مضبوط قلعے میں محفوظ کر لیا۔ اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر شیطان مردود سے اپنا بچاؤ نہیں کر سکتا۔

9- با وضو رہنا

یہ بچاؤ کا بہترین طریقہ ہے، بالخصوص غصے اور شہوت کے بھڑکنے کے وقت، اس لیے کہ ابن آدم کے دل میں ایک آگ ہوتی ہے جس کے بھڑکنے سے یہ آثار نمودار ہوتے ہیں۔

جیسے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "خبردار! غصہ ابن آدم کے دل میں ایک انگارہ ہے، کیا تم اس کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی باچھوں کا پھولنا نہیں دیکھتے؟ پس جو شخص یہ کیفیت محسوس کرے تو وہ زمین کی طرف مائل ہو۔

نیز نبی ﷺ نے فرمایا: "بلاشبہہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور یقینا شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے۔

10- بے سود نظر ، کلام اور کھانے اور لوگوں سے میل جول سے رکنا

اس لیے کہ شیطان ابن آدم پر ان چار دروازوں سے داخل ہوتا مسند احمد میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ” نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اس کی اللہ کے خوف سے حفاظت کرے، تو اللہ اس کے عوض اسے ایسا ایمان عطا کرے گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔

امام نووی اللہ نے ایک چیز کا اضافہ کیا اور وہ اذان ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ سہیل بن ابو صالح بیان کرتے ہیں: ”مجھے میرے باپ نے بنو حارثہ کی طرف بھیجا اور میرے ساتھ ہمارا ایک غلام تھا۔ دیوار کے پیچھے سے کسی نے اس کا نام لے کر پکارا، میرا ساتھی دیوار پر چڑھا، لیکن اسے کوئی چیز نظر نہ آئی۔ . واپسی پر میں نے اپنے باپ سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے: اگر مجھے اس امر کا پتا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ بھیجتا لیکن جب بھی تم اس طرح کی آواز سنو تو اذان کہہ دیا کرو۔ اس لیے کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا جو نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان بیان کر رہے تھے کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوۓ بھاگ جا تا ہے۔

علاوہ ازیں قرآن پاک کی تلاوت شیطان کے شر سے بچنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک مخفی پردہ ڈال دیتے ہیں۔” (بنی اسرائيل : 45)