حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔ اسرائیل کا معنی ہے : اللہ کا بندہ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو ” بنی اسرائیل ” کہا جاتا ہے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے خاندان کے ساتھ کنعان میں آباد تھے۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعے مصر پہنچے۔ پھر ان کی کئی نسلیں حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے تک مصر میں آباد رہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی ابتدائی زندگی اور خواب
حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بارہ بیٹے عطا فرمائے۔ جن میں حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالی کے نبی اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہیتے بیٹے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام خوب صورت بھی تھے اور خوب سیرت بھی۔ ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بہت محبت کرتے تھے۔
ایک دن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا کہ ابا جان میں خواب میں دیکھتا ہوں ایک سورج ، چاند اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام سے فرمایا کہ اللہ تعالی تم پر اپنا فضل فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالی تمھیں خوابوں کی تعبیر بتانے اور باتوں کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت دینے والا ہے۔ ساتھ ہی حضرت یعقوب علیہ السلام نے انھیں یہ تلقین فرمائی کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے دس بڑے بھائیوں کا خیال تھا کہ ہم جوان ہیں اور اپنے والد کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے والے ہیں لیکن ہمارے والد کو ہم سے زیادہ یوسف سے محبت ہے۔

بھائیوں نے مشورہ کیا کہ ہمیں یوسف کو قتل کر دینا چاہیے۔ یا کہیں دور پھینک آنا چاہیے تا کہ ہمارے والد کی توجہ یوسف سے ہٹ کر ہماری طرف ہو جائے ۔اپنے فیصلے پر عمل کرنے کے لیے بھائی اپنے والد کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ کل ہم سیر و تفریح کے لیے جنگل جار ہے ہیں۔ آپ یوسف کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ بھی کھیلے کودے اور ہمارے ساتھ کھائے پئے۔ ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم کھیل کود میں نہ لگ جاؤ اور اسے بھیٹریا کھا جائے۔ بھائیوں نے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہوتے ہوئے بھیٹریا ہمارے بھائی کو کھا جائے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بالآخر اجازت دے دی۔ بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو لے کر جنگل پہنچ گئے۔ بڑے بھائی یہودا نے سب کو مشورہ دیا کہ یوسف کو قتل نہ کرو انھیں ایک گہرے کنویں میں ڈال دو۔ لہذا انھوں نے اس پر عمل کرتے ہوئے جنگل میں حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک گہرے کنویں میں پھینک دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی رات کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس روتے ہوئے پہنچے۔
بھائیوں نے کہا کہ ہم کھیل میں لگ گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس بٹھادیا۔ اسے ایک بھیڑیے نے کھالیا۔ بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض پر جھوٹا خون لگا لائے۔انھوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض کو ثبوت کے طور پر حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام سمجھ گئے کہ یوسف ابھی زندہ ہے اور یوسف کے بھائی صحیح نہیں کہ رہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تمھاری بنائی ہوئی جھوٹی بات ہے۔ لہذا میں صبر کرتا ہوں اور اس معاملہ میں اللہ تعالی ہی سے مدد طلب کرتا ہوں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں تنہا تھے۔ ایک قافلے کا جنگل سے گزر ہوا۔ قافلے والوں نے اپنے ایک آدمی کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ اس شخص نے پانی بھرنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا۔
حضرت یوسف علیہ السلام ڈول میں بیٹھ گئے۔اس شخص نے جب ڈول اوپر کھینچا تو ایک خوب صورت لڑکے کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ خوشی میں پکار نے لگا کہ یہ تو نہایت خوب صورت لڑکا ہے۔ قافلے والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کرنے کے لیے چھپالیا۔ قافلے والے حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر لے گئے۔ عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مہنگی قیمت میں خریدا۔
عزیز مصر نے اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ یوسف کو عزت واکرام سے رکھو شاید کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کو پہنچے تو خوب صورتی میں ان جیسا کوئی نہ تھا۔ ایک دن زلیخا نے محل کے تمام دروازے بند کر دیئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو برائی کی دعوت دی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالی کی پناہ مانگی اور دروازے کی طرف دوڑے۔
جب دونوں دروازے کے پاس پہنچے تو وہاں انھوں نے عزیز مصر کو کھڑا ہوا پایا۔ شوہر کو دیکھتے ہی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام پر برائی کا الزام لگایا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فوراً انکار کیا اور فرمایا یہ عورت مجھے برائی کی دعوت دے رہی تھی۔ عزیز مصر کے لیے فیصلہ کر نا مشکل ہو گیا۔
اس پر زلیخا کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ یوسف کی قمیض کو دیکھا جائے اگر وہ سامنے سے پھٹی ہے تو زلیخا سچی ہے اور یوسف جھوٹے ہیں اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو زلیخا جھوٹی ہے اور یوسف سچے ہیں۔ جب ان کی قمیض کو دیکھا گیا تووہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔
اس پر عزیز مصر نے زلیخا کو ڈانٹا اور کہا کہ تم ہی گناہ گار ہولہذا اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ زلیخا کا یہ واقعہ لوگوں میں عام ہو گیا۔ امیر گھرانوں کی عور تیں زلیخا کو برا بھلا کہنے لگیں کہ وہ ایک معمولی غلام پر عاشق ہو گئی۔ جب زلیخاتک یہ باتیں پہنچیں تو اس نے تمام عورتوں کو دعوت پر بلایا اور ان کی مہمان نوازی پھلوں سے کی۔ ہر ایک کو پھل کاٹنے کے کے لیے چھری دی۔ پھر زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان عورتوں کے سامنے سے گزریں۔
عورتیں حضرت یوسف علیہ السلام کی خوب صورتی کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ انھوں نے پھل کاٹتے کاٹتے اپنے ہاتھ زخمی کر لیے اور کہا کہ یہ انسان نہیں بلکہ ایک نہایت معزز فرشتہ ہے۔ زلیخا نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں۔ ساتھ ہی زلیخا نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی تو میں اسے جیل میں ڈلوا دوں گی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ مجھے برائی کی بجائے قید میں رہنا زیادہ پسند ہے۔
عزیز مصر نے عورتوں کا حال دیکھ کر یہی طے کیا کہ یوسف علیہ السلام کو کچھ عرصہ کے لیے جیل بھیج دیا جائے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ دو نوجوان بھی جیل میں داخل کیے گئے۔ یہ دونوں مصر کے بادشاہ کے ملازم تھے۔ ان میں سے ایک بادشاہ کو شراب پلانے والا تھا اور دوسرا روٹی پکانے والا تھا۔ ان دونوں پر بادشاہ کو زہر دینے کا الزام تھا۔ بادشاہ کو شراب پلانے والے نے خواب دیکھا کہ بادشاہ کے لیے شراب بنارہا ہے۔
جب کہ دوسرے نے خواب میں دیکھا کہ بادشاہ کے لیے روٹیاں پکا کر سر پر رکھے ہوئے ہے اور پرندے اس کے سر پر سے نوچ کر کھا رہے ہیں۔ دونوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے خواب سنائے اور ان کی تعبیر پوچھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان نوجوانوں کو تسلی دی کہ میں جلد تمھیں تمھارے خوابوں کی تعبیر بتاتا ہوں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے دونوں نوجوانوں کو توحید یعنی ایک اللہ تعالی کو ماننے اور شرک سے بچنے کی دعوت دی۔
پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہوئے فرمایا کہ بادشاہ کو شراب پلانے والا آزاد کر دیا جائے گا اور وہ دوبارہ بادشاہ کی خدمت کرے گا۔ جب کہ روٹی پکانے والے کو سولی دے دی جائے گی۔ اور پرندے اس کے سر کو نوچ کر کھائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کو شراب پلانے والے سے فرمایا کہ وہ ان کا ذکر اپنے بادشاہ سے کرے۔ وہ اپنی نوکری پر بحال ہو گیا لیکن وہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر بادشاہ سے کرنا بھول گیا۔ اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں کئی سال رہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا اب تک جو دور ہم نے پڑھا ہے۔ وہ تکلیفوں سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن ان تکلیفوں میں حضرت یوسف علیہ السلام نے صبر سے کام لیا اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہے اور اس کے حکموں کو پورا کرتے رہے ۔ وہ کبھی زبان پر شکایت نہ لائے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انھیں زبردست عروج عطا فرمایا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا عروج اور عزیز مصر کا خواب
حضرت یوسف علیہ السلام ابھی جیل میں ہی تھے کہ مصر کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھارہی ہیں۔ اور سات سر سبز خوشے ہیں اور سات خشک خوشے ہیں۔ بادشاہ نے اپنے وزیروں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ انھوں نے کہا یہ پریشان کر دینے والا خواب ہے۔ اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔ اس پر بادشاہ کے آزاد ہو جانے والے خادم کو حضرت یوسف علیہ السلام یاد آ گئے۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔
پھر وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس جیل میں پہنچا اور انھیں بادشاہ کا خواب سنایا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگ سات سال خوب کھیتی باڑی کرو گے۔ خوب غلہ ہو گا اور خوش حالی رہے گی۔ ساتھ ہی حضرت یوسف علیہ السلام نے تدبیر بھی بتائی کہ جو غلہ کاٹو، تھوڑا استعمال کر و باقی خوشوں میں رہنے دو تاکہ اناج دیر تک محفوظ رہے۔ پھر فرمایا کہ خوش حالی کے ان سات سالوں کے بعد قحط کے سات سال آئیں گے۔ جس میں یہ بچا ہوا اناج کام آئے گا۔ ان سات سالوں کے بعد دوبارہ بارشیں ہوں گی اور قحط دور ہو جائے گا۔
خادم نے جب بادشاہ کو خواب کی تعبیر اور قحط سے نمٹنے کی تدبیر بتائی تو وہ بہت خوش ہوا۔ بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو فوراً اپنے پاس بلوایا۔ جب بادشاہ کا پیغام لے کر قاصد حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل سے باہر آنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ پہلے بادشاہ سے کہو کہ وہ معلوم کرے کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ زخمی کر لیے تھے۔
بادشاہ نے ان عورتوں کو بلا کر پوچھ گچھ کی تو زلیخا نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکیزگی کا اعتراف کیا۔ تب حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ کے پاس تشریف لائے۔ بادشاہ نے آپ کو بہت پسند کیا اور معتمد خاص بنانا چاہا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کا ذمہ دار بنادو کیونکہ میں علم بھی رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں۔ بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنا خاص وزیر بنالیا۔ یوں رفتہ رفتہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کی ایک صاحب اختیار شخصیت بن گئے۔
کچھ ہی عرصہ میں خوش حالی کے سات سال گزر گئے اور قط والے سال شروع ہو گئے۔ یہ قحط بڑے علاقہ تک پھیل گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی عمدہ تدبیر سے مصر میں بڑی مقدار میں غلہ موجود تھا۔ جلد ہی نہ صرف مصر بلکہ دور دراز کے علاقوں تک حضرت یوسف علیہ السلام کی رحم دلی اور سستی قیمت میں غلہ دینے کی شہرت ہو گئی۔
جب یہ شہرت حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں تک پہنچی کہ عزیز مصر سستی قیمت میں لوگوں کو غلہ دے رہے ہیں تو آپ کے بھائی بھی غلہ خریدنے کے ارادہ سے مصر پہنچے۔ جب بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا لیکن بھائی انھیں نہ پہچان سکے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں پر اپنی حقیقت ظاہر نہ ہونے دی۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے ان کے گھر والوں کی خیریت معلوم کی۔ ان کی اچھی مہمان نوازی کی اور ان کے سامان کے ساتھ ہی ان کی رقم بھی واپس رکھوا دی۔ جب بھائی رخصت ہونے لگے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اگلی مرتبہ اپنے بھائی بنیامین کو بھی اپنے ساتھ لے کر آنا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو تنبیہ کی کہ اگر تم اپنے بھائی بنیامین کو نہ لائے تو پھر میں تمھیں غلہ نہیں دوں گا۔ بھائی جب گھر واپس پہنچے تو اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہنے لگے کہ اگر ہم بنیامین کو ساتھ لے کر نہیں گئے تو ہمیں غلہ نہیں دیا جائے گا۔ جب انھوں نے اپنا سامان کھولا تو اپنی رقم کو موجود پایا۔
وہ پکار اٹھے ابا جان دیکھیں ہماری رقم بھی ہمیں واپس کر دی گئی ہے۔ اب تو ہم ضرور اپنے بھائی کو ساتھ لے کر جائیں گے اور اپنے گھر والوں کے لیے غلہ لے کر آئیں گے اور ہم سب مل کر بنیامین کی حفاظت کریں گے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تم پر اسی طرح بھروسا کروں ، جیسا کہ میں نے یوسف کے بارے میں تم پر بھروسا کیا تھا۔ اصل بھروسا کے لائق تو صرف اللہ تعالی کی ذات ہے اور میں اسی پر بھروسا کر تا ہوں۔
تم سب مجھ سے وعدہ کرو کہ تم بنیامین کو میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کچھ اور معاملہ فرمادے۔ بھائیوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا اور خوشی خوشی مصر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ گیارہ جو ان بھائیوں کو ایک ساتھ مصر میں داخل ہوتا دیکھ کر کوئی ان سے حسد نہ کرے یا کوئی انھیں نقصان نہ پہنچائے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے جو علم حاصل تھا اس کی بنا پر آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا کہ تم سب مصر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہو نا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ بیٹوں نے اپنے والد کے حکم کی تعمیل کی اور الگ الگ دروازوں سے مصر میں داخل ہوئے۔ جب بھائی بنیامین کو ساتھ لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس بٹھایا اور راز داری سے فرمایا کہ میں تمھارا بھائی یوسف ہوں ۔اب تم میرے پاس ہی رہو گے ۔ تم بھائیوں کی بدسلوکی پر افسوس نہ کرو۔
حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس مصر میں روکنا چاہتے تھے لیکن بادشاہ کے قانون کے مطابق وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک تدبیر سجھائی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کے تھیلے میں اپنا قیمتی پیالہ جس سے ناپ کر غلہ دیا جار ہا تھا رکھوا دیا۔ پھر بادشاہ کے محافظوں میں سے ایک نے آکر بھائیوں سے کہا تم چور ہو اور تم نے بادشاہ کا پیالہ چرایا ہے۔
بھائیوں نے کہا کہ ہم یہاں چوری کرنے نہیں آئے اور نہ ہی کوئی فساد چاہتے ہیں۔ محافظوں نے کہا کہ اگر تم جھوٹے نکلے تو تمھاری سزا کیا ہو گی؟ بھائیوں نے کہا کہ ہمارے ہاں چور کی سزا یہ ہے کہ ہم چور کو غلام بنا لیتے ہیں ۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے تلاشی لینا شروع کی۔ پہلے اپنے بڑے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی اور اس کے تھیلے سے پیالہ نکال لیا۔ جب بھائیوں نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس کے بھائی یوسف نے بھی چوری کی تھی۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کی اس الزام تراشی پر صبر کیا اور دل میں کہا کہ جو تم باتیں بناتے ہو اللہ تعالی اسے خوب جانتا ہے۔ بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے درخواست کی ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں اور وہ بنیامین کی جدائی برداشت نہ کر سکیں گے۔ لہذا آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ تو نا انصافی ہے کہ ہمارا سامان کسی کے پاس سے نکلے اور اس کے بدلے میں ہم اپنے پاس کسی اور کو رکھ لیں۔ اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالی کی تدبیر سے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیا۔
جب بھائی بنیامین کو لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے تو آپس میں مشورہ کرنے لگے ۔انھوں نے کہا کہ اب ہم والد صاحب کو کیا جواب دیں گے۔ بڑے بھائی نے کہا میں تو والد صاحب کا سامنا نہیں کر سکتا۔ ہم سے پہلے بھی یوسف
کے بارے میں غلطی ہو چکی ہے۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا پھر اللہ تعالی خود ہی میرے لیے فیصلہ فرما دے اور حقیقت حال واضح ہو جائے۔ لہذا باقی نو بھائی واپس اپنے والد کے پاس چلے آئے۔ بھائیوں نے گھر آتے ہی والد صاحب سے کہا کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی جس کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ نہ آسکا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر میں تو صبر ہی کرتا ہوں۔
میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی میرے باقی تینوں بیٹوں کو واپس میرے پاس لے آئے گا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کی یاد میں اتنے غم زدہ رہتے تھے کہ ان کی آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے یہ فرماتے ہوئے کہ میں اللہ تعالی کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ انھیں حکم دیا کہ جاؤ اور ایک مرتبہ پھر یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔
اور دیکھو اللہ تعالی کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا۔ کیوں کہ اللہ تعالی کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔ بھائی دوبارہ مصر آئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے درخواست کی کہ ہمارے خاندان والوں کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس رقم بھی پوری نہیں ہے۔ ہمیں تھوڑی قیمت کے بدلہ میں پورا غلہ عطا فرمادیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے اپنے بھائیوں کی تکلیف دیکھی نہ گئی۔
اب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو حقیقت سے آگاہ فرمایا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ تمھیں یاد ہے کہ تم نے اپنی نادانی میں اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کیا کیا تھا؟ بھائیوں نے جب یہ سنا تو حیرت سے بولے تو کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ہاں! میں یوسف ہوں۔ اللہ تعالی نے مجھ پر بڑا احسان فرمایا اور یقیناً اللہ تعالی تقوی اختیار کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ بھائیوں پر جب حضرت یوسف علیہ السلام کی حقیقت واضح ہو گئی تو انھوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور بڑے شرمندہ ہوئے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا اور اللہ تعالی سے بھی اپنے بھائیوں کے لیے بخشش کی دعا مانگی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ میری قمیض لے جاؤ اور اس کو میرے والد محترم کے چہرے پر ڈال دو۔ اس سے ان کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئے گی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے فرمایا کہ والدین اور تمام گھر والوں کو لے کر آپ سب میرے پاس مصر آ جائیں۔
قافلے والے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض اور بھائیوں کے ساتھ ابھی مصر سے روانہ ہی ہوئے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو میلوں دور کنعان میں حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو آنا شروع ہو گئی۔ وہ گھر والوں سے فرمانے لگے کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ گھر والوں نے کہا یقینا آپ تو اپنی اسی پرانی محبت میں ہیں۔ یوسف کے غم میں آپ نے اپنی بینائی کھو دی ہے۔ بہر حال کچھ ہی دنوں میں قافلہ کنعان پہنچ گیا۔
بھائیوں نے حضرت یوسف السلام کی قمیض حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالی تو اللہ تعالی نے اس کی برکت سے ان کی بینائی لوٹادی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے گھر والوں سے فرمایا کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ بیٹوں نے کہا ابا جان ! ہمارے لیے اللہ تعالی سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں معاف فرما دے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا میں اپنے رب سے تمھارے لیے مغفرت طلب کروں گا۔ جب قافلہ مصر کے قریب آیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر سے باہر نکل کر اپنے گھر والوں کا استقبال کیا اور فرمایا کہ امن و سکون کے ساتھ مصر میں داخل ہو جائیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا۔
اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے ماں باپ اور گیارہ بھائی سب کے سب حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے سجدہ میں چلے گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پکار اٹھے کہ ابا جان! اللہ تعالی نے میرے خواب کو سچ کر دکھایا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ تعالی پر مکمل بھروسا رکھیں۔ دنیا والوں کی سازشیں بہت معمولی ہیں اور اللہ تعالی کی طاقت و قدرت بہت بڑی ہے۔ جس کے ساتھ اللہ تعالی ہو ساری دنیا مل کر بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ کامیابی آخر کار انھیں ملتی ہے جو حق پر کھڑے رہتے ہیں۔